Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر6

اور بہر حال یہ مرحلہ اذیت کا تو تھا ہی، باقیوں کی طرح اس کی حالت بھی انتہائی دردناک تھی۔
×××××
عنقا اور عدیل کا نکاح ہو چکا تھا اس کے بعد عنقا واپس اپنے گھر چلی گئی۔
عدیل ہاسپٹل سے ڈسجارج ہونے کے بعد پہلی فرست میں ہی اپنے مام ڈیڈ کے ساتھ عنقا کے گھر گیا، جس خاموشی اور سادگی سے نکاح ہوا ،اس سے کہیں زیادہ سناٹے میں اس کی رخصتی بھی کی گئی، کیوں کہ اریزے کا دُکھ ابھی تازہ تھا۔ ان کے گھر کی فضا ابھی تک سوگوار تھی۔
عادل کا تو جیسے گھر سے اور گھر والوں نے ناطہ ہی ٹوٹ چکا تھا۔۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر تیار ہوتا ، یونی جاتا اور واپس آنے کے بعد بھی آوارہ گردیوں میں مصروف رہتا، حتیٰ کہ وہ عنقا کی رخصتی میں بھی شریک نہ ہوا۔
عدیل کو اس کی حالت بہت مزہ دے رہی تھی، کیوں کہ اس کی انتقامی سوچ ابھی تک برقرار تھی۔
مام، ڈیڈ نے بھی عادل سے اس سلسلے میں  کوئی گفتگو نہ کی، وہ بھلا کہتے تو کیا کہتے۔۔؟؟ کس منہ سے اس کا سامنا کرتے۔۔!! ایک بیٹے کی خاطر دوسرے کا دل اجاڑ چکے تھے، اب ان میں حوصلہ نہ تھا کہ وہ اس کا سامنا کر پاتے۔۔ سو انہوں نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔۔ وہ کوشش میں تھے کہ اپنے اندر ہمت جمع کر پائیں، اور اپنے چھوٹے لاڈلے کو منا سکیں۔۔!! 
×××××××
عدیل اسے اپنے گھر لا چکا تھا، وہ اس کے کمرے میں سُکڑی سمٹی،بیڈ کی ایک طرف کو ٹانگیں لٹکائے بیٹھی تھی۔
دل بری طرح دُکھ رہا تھا، اسے اس وقت اپنے آپ سے نفرت محسوس ہورہی تھی اور دل چاہ رہا تھا کہ عدیل کو تو کچا چپا جائے۔
وہ جو تھوڑی بہت اریزے کی وجہ سے اس کی عزت کرتی تھی، اب وہ بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اس لیے تو اس نے سوچا تھا کہ وہ اسے کبھی وہ عزت نہیں دے گی جس کا وہ حقدار ہوگا ، وہ اسے اریزے کی طرح "آپ" بھی نہیں کہے گی۔۔!! 
اپنی طرف سے، عدیل سے بدلے لینے کی بے ضرر سی تدبیریں، اس کے ذہن میں آتی جا رہی تھیں۔
ابھی وہ اپنی سوچوں میں مگن تھی کہ عدیل وہاں آیا۔ 
وہ انداز میں وحشت،  آنکھوں میں قہر لیے اس کی طرف بڑھا، عنقا بری طرح سہمی تھی۔ عدیل نے اپنی سخت انگلیوں کو اس کے چہرے کی طرف بڑھایا، اور اس کا منہ سختی سے اپنی انگلیوں کی گرفت میں لے کر اسے کھڑا کیا، اس نے بچاؤ کے لیے اپنے ہاتھ سے اُس کا ہاتھ ہٹانا چاہا لیکن بے سود۔۔!!
عدیل نے اسے دیوار کی طرف دھکیلا، عنقا کی کمر بری طرح دیوار سے لگی تھی اور سر لگتے لگتے بچا تھا، وہ کچھ بول بھی نہیں پارہی تھی، اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے اور عدیل کی انگلیاں بھگونے لگے۔
عدیل سفاکیت سے گویا ہوا۔۔
 "میری بیوی کو مارا ہے ناں تم نے۔۔!!! ڈائن ہو تم ڈائن۔۔!! تم نے مجھ سے میری اریزے چھینی ہے۔۔!! جیسے تم نے اس کو مارا، میں بھی تمہیں ماروں گا۔۔"
اس وقت، وہ بالکل پاگل لگ رہا تھا،
وہ تو وہ عدیل تھا ہی نہیں جس کی میچورٹی، سمجھداری اور حقیقت پسند طبیعت کو سب سراہتے تھے۔
وہ نجانے کیا بن گیا تھا کہ ایک حقیقت نہیں سہہ پایا، ایک سچ برداشت نہیں کر پایا۔
منہ پر گرفت گہری ہونے کے باعث وہ کچھ بول بھی نہیں پا رہی تھی۔۔ اور بس مسلسل ، اسل ہاتھ ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی جو بار بار ناکام ہی رہی۔
اس کے چہرے پر گہرے ہوتے، تکلیف کے آثار، عدیل کو سکون پہنچا رہے تھے، جو کہ محض وقتی سکون تھا۔
عدیل کا پاگل پن بڑھتا جا رہا تھا، وہ اپنے ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹا کر گردن تک لے کر گیا اور شدت سے دبوچا، عنقا کے روکنے پر، مزاحمت کرنے پر ، مزید سخت ردعمل دیا اور جب عنقا تقریباً بے ہوش ہونے کو تھی اس وقت، وہ اسے بیڈ پر پٹخ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔
وہ بری طرح سسک رہی تھی، اس نے پہلی مرتبہ اتنا وحشیانہ سلوک سہا تھا۔
کچھ دیر وہ، یونہی بیڈ پر پڑی رہی اور پھر ہمت کر کے اٹھی، واشروم گئی، ہاتھ منہ دھوئے اور اپنا حلیہ درست کیا۔
وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے آنسو نہیں روک پا رہی تھی، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ، اس کے دل میں عدیل کے لیے نفرت مزید بڑھتی جا رہی تھی۔
"جاہل انسان، بدتمیز، پاگل، شرم نہیں آتی۔۔!! واقعی جاہل ہے یہ جاہل۔۔!!" اس نے روتے ہوئے سوچا۔
"توبہ۔۔ اللّٰه جی۔۔!! ابھی اگر وہ تھوڑی دیر اور تک مجھے نہ چھوڑتا تو میں مر ہی جاتی۔۔!!" اس نے اپنے  گلے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جھرجھری لی۔
"اوہ۔۔ خدایا۔۔!! اب میں کیا کروں، دو دن اس جاہل، جنونی کے ساتھ رہی تو یہ تو مجھے مار ہی ڈالے گا۔۔!! نہیں نہیں۔۔!! یہ مجھے ایسے نہیں مار سکتا۔۔۔!! مجھے اس کو روکنا ہوگا۔۔!! ہاں روکنا ہی ہوگا۔۔۔!! کسی بھی طرح۔۔!! ورنہ یہ تو مجھے سچ مچ ہی مار دے گا۔۔!!" اس نے دبی دبی سی سسکیاں لیتے ہوئے سوچا۔۔
 اور اگلے لمحے اپنی بے بسی کا خیال کرتے۔۔۔ اس کی سسکیاں پھر سے بلند ہوئیں۔
نجانے کتنی دیر وہ یونہی سسکتی رہی اور کوئی پوچھنے تک نہ آیا۔
××××××
،اُس کی روتے روتے کب آنکھ لگی، اسے پتہ ہی نہ چلا ۔۔ وہ جب اٹھی تو  رات کا وقت تھا، اس نے یہاں وہاں دیکھا تو کوئی نہ تھا اور کمرے کا سکوت بھی برقرار تھا۔۔ جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ وہ وحشی ابھی تک دوبارہ کمرے میں نہیں آیا تھا۔
اسے اس وقت کچھ  بھوک محسوس ہوئی، کچن کا تو اسے پتہ ہی تھا۔۔اور وہ جانتی تھی کہ اس وقت ملازمہ وہاں موجود نہیں ہوگی، اس لیے وہ خود ہی کچھ کھانے پینے کے لیے اٹھی۔
اُسے رہ رہ کر، عدیل پر غصہ آ رہا تھا۔۔ اسے امید نہیں تھی کہ وہ حقیقت سے بھاگنے والا کوئی بھگوڑا نکلے گا۔۔!! 
خیر، وہ اُس پر ڈھیر ساری لعنتیں بھیجتی، کچن کی طرف گئی۔۔ اب وہ  بےچاری کر بھی کیا سکتی تھی سوائے لعنتیں بھیجنے کے۔
×××
اس نے فریج سے اپنے لیے کھانا لیا اور گرم کرنے لگی کہ وہاں عادل آ دھمکا، وہ شاید پانی پینے کی غرض سے وہاں آیا تھا۔۔ کتنا بدلا بدلا سا لگ رہا تھا وہ۔۔!! عنقا کو وہ بالکل اجڑا ہوا، ناراض اور بکھرا سا لگا۔
عادل کو اسے وہاں دیکھ کر ایک دم غصہ سا آیا، وہ غصے میں ہی اس کے قریب گیا۔۔ "تم نے بہت ہی گھٹیا حرکت کی ہے۔۔!! تم تو مجھ سے محبت کرتی تھیں ناں۔۔تو پھر مجھ پر، اتنا بڑا ظلم کیوں کیا۔۔؟؟ جواب دو ۔۔!!" وہ اپنا غصہ دباتا، الفاظ چباتا، تلخی سے گویا ہوا۔۔
اس نے ، عنقا کے بازو کو سختی سے دوبوچ کر پوچھا تھا۔
 عادل کی تکلیف، اس کا کاٹ دار لہجہ، اس کے الفاظ۔۔!! سب کے سب ، عنقا کے دل پر برسے تھے، "عادل۔۔!!" اس نے ہلکی سی آواز میں سسک کر کہا۔
اور اگلے لمحے وہاں ایک اور شخص کا اضافہ ہوا۔۔ عدیل ان کی باتوں کا ہلکا ہلکا سا شور سنتا ہوا وہاں آیا تھا۔
ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر وہ اندر تک جلا تھا۔

   1
0 Comments